بغداد، 20/جولائی (ایس او نیوز؍آئی این ایس انڈیا): عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی نے تسلیم کیا ہے کہ موصل کو داعش سے واگزار کرانے کی لڑائی کے دوران عراقی افواج سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں سرزد ہوئیں۔ لیکن، ساتھ ہی اُنھوں نے کہا ہے کہ یہ جرائم انفرادی حرکات تھیں، جب کہ ملوث لوگوں کو سزا دی جائے گی۔عبادی نے سماجی میڈیا پر گردش کرنے والی وڈیو کا پتہ لگنے کے بعد منگل کے روز یہ بات کہی، جس میں داعش سے تعلق کے شبہ پر فوج نے مشتبہ افراد کو دھکا دے کر اونچی دیوار سے نیچے گراتے ہوئے اور پھر اُن کے جسم پر گولیاں چلاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔یہ تازہ ترین ثبوت اُس وقت سامنے آیا جب گذشتہ ہفتے وزیر اعظم نے فتح کا اعلان کیا، جس دوران ایک وڈیو نمودار ہوئی جس میں ایک فوجی ایک غیر مسلح شخص کی ٹانگوں پر گولیاں چلا رہا ہے۔عبادی نے یہ بیان اُس وقت دیا،جب ہیومن رائٹس واچ نے بتایا کہ بین الاقوامی مبصرین کو مغربی موصل میں ایک پھانسی گھاٹ کا پتہ لگا ہے، اور اُس کے پاس مزید ثبوت ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عراقی افواج نے لوگوں کو بلاامتیاز ہلاک کیا، ایسے میں جب موصل پر قبضے کی لڑائی کے اختتام پر لوگ شہر چھوڑ کر بھاگ رہے تھے۔یہ نتائج ایک رپورٹ میں شامل ہیں جس میں عراقی حکومت سے قتل، اذیت اور دیگر جنگی جرائم کی تفتیش کے لیے کہا گیا، جن میں سلامتی افواج ملوث بتائی جاتی ہیں، تاکہ ذمہ داروں کا احتساب ہو سکے۔حقوقِ انسانی کے گروپ نے بدھ کے روز کہا کہ عبادی نے کسی غلط حربے کی چھان بین نہیں کی، جیسا کہ وعدہ تھا نہ ہی اب تک کسی فوجی کا احتساب ہوا ہے۔مشرق وسطیٰ کے بارے میں ہیومن رائٹس کی سربراہ، سارا لی وِٹسن نے کہا ہے کہ وہ ثبوت کے اُس انبار کو نظرانداز کر رہے ہیں جس میں اُن کی فوجوں نے بدترین جنگی جرائم کیے، جب اُسی شہر کی آزادی کا وعدہ کیا گیا۔وٹسن نے مزید کہا کہ عبادی کی فتح دھری رہ جائے گی اگر وہ اپنی سلامتی افواج کی جانب سے سرزد ہونے والی سریح خلاف ورزیوں کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدام نہیں کرتے۔